Proclaim, “Pray calling (Him) Allah or calling (Him) the Most Gracious; whichever name you call with – they are all His magnificent names; and do not offer your prayers very loudly or very softly, and seek a way between them.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
قل -أيها الرسول- لمشركي قومك الذين أنكروا عليك الدعاء بقولك: يا الله يا رحمن، ادعوا الله، أو ادعوا الرحمن، فبأي أسمائه دعوتموه فإنكم تدعون ربًا واحدًا؛ لأن أسماءه كلها حسنى. ولا تجهر بالقراءة في صلاتك، فيسمعك المشركون، ولا تُسِرَّ بها فلا يسمعك أصحابك، وكن وسطًا بين الجهر والهمس.
رحمن یا رحیم ؟ کفار اللہ کی رحمت کی صفت کے منکر تھے اس کا نام رحمن نہیں سمجھتے تھے تو جناب باری تعالیٰ اپنے نفس کے لئے اس نام کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہی نہیں کہ اللہ کا نام اللہ ہو رحمن ہو یا رحیم اور بسم ان کے سوا بھی بہت سے بہترین اور احسن نام اس کے ہیں۔ جس پاک نام سے چاہو اس سے دعائیں کرو۔ سورة حشر کے آخر میں بھی اپنے بہت سے نام اس نے بیان فرمائے ہیں۔ ایک مشرک نے حضور ﷺ سے سجدے کی حالت میں یا رحمن یا رحیم سن کر کہا کہ لیجئے یہ موحد ہیں دو معبودوں کو پکارتے ہیں اس پر یہ آیت اتری۔ پھر فرماتا ہے اپنی نماز کو بہت اونچی آواز سے نہ پڑھو۔ اس آیت کے نزول کے وقت حضور ﷺ مکہ میں پوشیدہ تھے جب صحابہ کو نماز پڑھاتے اور بلند آواز سے اس میں قرأت پڑھتے تو مشرکین قرآن کو، اللہ کو، رسول کو گالیاں دیتے اس لئے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں ہاں ایسا آہستہ بھی نہ پڑھنا کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی آواز سے قرأت کیا کرو۔ پھر جب آپ ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو یہ تکلیف جاتی رہی اب جس طرح چاہیں پڑھیں۔ مشرکین جہاں قرآن کی تلاوت شروع ہوتی تو بھاگ کھڑے ہوتے۔ اگر کوئی سننا چاہتا تو انکے خوف کے مارے چھپ چھپ کر بچ بچا کر کچھ سن لیتا۔ لیکن جہاں مشرکوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے انہیں سخت ایذاء دہی شروع کی اب اگر بہت بلند آواز کریں تو ان کی چڑ اور ان کی گالیوں کا خیال اور اگر بہت پست کرلیں تو وہ جو چھپے لگے کان لگائے بیٹھے ہیں وہ محروم اس لئے درمیانہ آواز سے قرآت کرنے کا حکم ہوا۔ الغرض نماز کی قرأت کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ مروی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنی نماز میں پست آواز سے قرأت پڑھتے تھے اور حضرت عمر ؓ با آواز بلند قرأت پڑھا کرتے تھے۔ حضرت صدیق اکبر ؓ سے پوچھا گیا کہ آپ آہستہ کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اپنے رب سے سرگوشی ہے وہ میری حاجات کا علم رکھتا ہے تو فرمایا کہ یہ بہت اچھا ہے۔ حضرت عمر ؓ سے پوچھا کہ آپ بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا شیطان کو بھگاتا ہوں اور سوتوں کو جگاتا ہوں تو آپ سے بھی فرمایا گیا بہت اچھا ہے لیکن جب یہ آیت اتری تو حضرت ابوبکر ؓ سے قدرے بلند آواز کرنے کو اور حضرت عمر فاروق ؓ سے قدرے پست آواز کرنے کو فرمایا گیا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے اسی طرح ثوری اور مالک ہشام بن عروہ سے وہ اپنے باپ سے وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہی قول حضرت مجاہد، حضرت سعید بن جبیر، حضرت ابو عیاض، حضرت مکحول، حضرت عروہ بن زبیر رحمہم اللہ کا بھی ہے۔ مروی ہے کہ بنو تمیم قبیلے کا ایک اعرابی جب بھی حضور ﷺ نماز سے سلام پھیرتے یہ دعا کرتا کہ اے اللہ مجھے اونٹ عطا فرما مجھے اولاد دے پس یہ آیت اتری۔ ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت تشہد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ نہ تو ریا کاری کرو نہ عمل چھوڑو۔ یہ بھی کرو کہ علانیہ تو عمدہ کر کے پڑھو اور خفیہ برا کر کے پڑھو۔ اہل کتاب پوشیدہ پڑھتے اور اسی درمیان کوئی فقرہ بہت بلند آواز سے چیخ کر زبان سے نکالتے اس پر سب ساتھ مل کر شور مچا دیتے تو ان کی موافقع سے ممانعت ہوئی اور جس طرح اور لوگ چھپاتے تھے اس سے بھی روکا گیا پھر اس کے درمیان کا راستہ حضرت جبرائیل ؑ نے بتلایا جو حضور ﷺ نے مسنون فرمایا ہے۔ اللہ کی حمد کرو جس میں تمام تر کمالات اور پاکیزگی کی صفتیں ہیں۔ جس کے تمام تر بہترین نام ہیں جو تمام تر نقصانات سے پاک ہے۔ اس کی اولاد نہیں، اس کا شریک نہیں، وہ واحد ہے، صمد ہے، نہ اس کے ماں باپ، نہ اولاد، نہ اس کی جنس کا کوئی اور، نہ وہ ایسا حقیر کہ کسی کی حمایت کا محتاج ہو یا وزیر و مشیر کی اسے جاجت ہو بلکہ تمام چیزوں کا خالق مالک صرف وہی ہے سب کا مدبر مقدر وہی ہے اسی کی مشیت تمام مخلوق میں چلتی ہے وہ وحدہ لا شریک لہ ہے نہ اس کی کسی سے بھائی بندی ہے نہ وہ کسی کی مدد کا طالب ہے۔ تو ہر وقت اس کی عظمت جلالت کبریائی بڑائی اور بزرگی بیان کرتا رہ اور مشرکین جو تمہیں اس پر باندھتے ہیں تو ان سے اس کی ذات کی بزرگی برائی اور پاکیزگی بیان کرتا رہ۔ یہود و نصاریٰ تو کہتے تھے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ مشرکین کہتے تھے لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک یعنی ہم حاضر باش غلام ہیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں لیکن جو خود تیری ملکیت میں ہیں تو ہی ان کا اور ان کی ملکیت کا مالک ہے۔ صابی اور مجوسی کہتے ہیں کہا اگر اولیاء اللہ نہ ہوں تو اللہ سارے انتظام آپ نہیں کرسکتا۔ اس پر یہ آیت اتری اور ان سب باطل پرستوں کی تردید کردی گئی۔ نبی کریم ﷺ اپنے گھر کے تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو یہ آیت سکھایا کرتے تھے۔ آپ نے اس آیت کا نام آیت العز یعنی عزت والی آیت رکھا ہے۔ بعض آثار میں ہے کہ جس گھر میں رات کو یہ آیت پڑھی جائے۔ اس گھر میں کوئی آفت یا چوری نہیں ہوسکتی واللہ اعلم۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے ساتھ نکلا میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا یا آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا راہ چلتے ایک شخص کو آپ نے دیکھا نہایت ردی حالت میں ہے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا حضور ﷺ بیماریوں اور نقصانات نے میری یہ درگت کر رکھی ہے آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں کچھی وظیفہ بتادوں کہ یہ دکھ بیماری سب کچھ جاتی رہے ؟ اس نے کہا ہاں ہاں یا رسول اللہ ﷺ ضرور بتلائے احد اور بدر میں آپ کے ساتھ نہ ہونے کا افسوس میرا جاتا رہے گا اس پر آپ ہنس پڑے اور فرمایا تو بدری اور احدی صحابہ کے مرتبے کو کہاں سے پاسکتا ہے تو ان کے مقابلے میں محض خالی ہاتھ اور بےسرمایہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ انہیں جانے دیجئے آپ مجھے بتلا دیئجے۔ آپ نے فرمایا ابوہریرہ ؓ یوں کہو توکلت علی الذی لا یموت الحمد للہ الذی لم یتخذ ولدا الخ میں نے یہ وظیفہ پڑھنا شروع کردیا تھا چند دن گزرے تھے کہ میری حالت بہت ہی سنور گئی حضور ﷺ نے مجھے دیکھا اور پوچھا ابوہریرہ ؓ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ان کلمات کی وجہ سے اللہ کی طرف سے برکت ہے جو آپ نے مجھے سکھائے تھے اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے۔ اسے حافظ ابو یعلی اپنی کتاب میں لائے ہیں واللہ اعلم۔
The Prophet s would often say ‘O God O Compassionate One’. So they said ‘He Muhammad (s) forbids us to worship more than one god and yet he calls upon another god together with Him God’. The following was then revealed Say to them ‘Invoke God or invoke the Compassionate One that is to say invoke Him by either of these Names or call upon Him by saying ‘O God! O Compassionate One!’ whichever ayyan is conditional; mā is extra in other words whichever of these two Names you invoke is beautiful — this predicate ‘beautiful’ is indicated by the following statement to Him to the One called by these two Names belong the Most Beautiful Names’ these two Names being from among them; and they the other Names are the following as mentioned in hadīth God there is no god except Him the Compassionate the Merciful the King the Holy the Peace the Securer the Controller the Mighty the Compeller the Sublime the Creator the Maker out of nothing the Fashioner the ever Forgiving the Almighty the Bestower the Provider the Deliverer the Knower the Seizer the Extender the Lowerer the Raiser the Glorifier the Abaser the Hearer the Seer the Arbiter the Just the Subtle the Aware the Forbearing the Tremendous the Forgiver the Thankful the High the Great the Preserver the Conserver the Reckoner the Majestic the Generous the Watcher the Responsive the Embracing the Wise the Loving the Glorious the Resurrector the Witnessing the Truth the Guardian the Strong the Firm the Patron the Praiseworthy the Numberer the Initiator the Restorer the Life-giver the Death-maker the Living the Eternal Sustainer the Originator the Magnificent the One the Single the Everlasting Refuge the Powerful the Omnipotent the Advancer the Deferrer the First the Last the Outward the Inward the Ruler Exalted the Benign the Relenting the Avenger the Pardoning the Gentle Master of the Kingdom One of Majesty and Munificence the Equitable the Gatherer the Independent the Availing the Restrainer the Harming the Benefactor the Light the Guiding the Innovator the Enduring the Inheritor the Reasonable the Patient as reported by al-Tirmidhī. God exalted be He says And do not be loud in your prayer when you recite the Qur’ān therein lest the idolaters hear you and curse you as well as the Qur’ān and the One Who has revealed it; nor be silent do not murmur therein so that your companions might be able to hear it and benefit therefrom; but seek between that loudness and silence a middle way.