Then if it is later known that both of them committed sin, two others may take their place, from those who were caused the most harm by the false testimony, and they must swear by Allah that, “Our testimony is more accurate than the testimony of these two, and we have not exceeded the limits – if we do, then surely we shall be of the unjust.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
فإن اطلع أولياء الميت على أن الشاهدين المذكورين قد أثما بالخيانة في الشهادة أو الوصية فليقم مقامهما في الشهادة اثنان من أولياء الميت فيقسمان بالله: لَشهادتنا الصادقة أولى بالقبول من شهادتهما الكاذبة، وما تجاوزنا الحق في شهادتنا، إنا إن اعتدينا وشهدنا بغير الحق لمن الظالمين المتجاوزين حدود الله.
معتبر گواہی کی شرائط بعض لوگوں نے اس آیت کے عزیز حکم کو منسوخ کہا ہے لیکن اکثر حضرات اس کے خلاف ہیں اثنان خبر ہے، اس کی تقدیر شھداۃ اثنین ہے مضاف کو حذف کر کے مضاف الیہ اس کے قائم مقام کردیا گیا ہے یا دلالت کلام کی بنا پر فعل محذوف کردیا گیا ہے یعنی ان یشھد اثنان، ذواعدل صفت ہے، منکم سے مراد مسلمانوں میں سے ہونا یا وصیت کرنے والے کے اہل میں سے ہونا ہے، من غیر کم سے مراد اہل کتاب ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ منکم سے مراد قبیلہ میں اور من غیر کم سے مراد اس کے قبیلے کے سوا، شرطیں دو ہیں ایک مسافر کے سفر میں ہونے کی صورت میں موت کے وقت وصیت کے لیے غیر مسلم کی گواہی چل سکتی ہے، حضرت شریح سے یہی مروی ہے، امام احمد بھی یہی فرماتے ہیں اور تینوں امام خلاف ہیں، امام ابوحنیفہ ذمی کافروں کی گواہی آپس میں ایک دوسرے پر جائز مانتے ہیں، زہری کا قول ہے کہ سنت جاری ہوچکی ہے کہ کافر کی شہادت جائز نہیں نہ سفر میں نہ حضر میں۔ ابن زید کہتے ہیں کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں اتری ہے جس کی موت کے وقت اس کے پاس کوئی مسلمان نہ تھا یہ ابتدائے اسلام کا وقت تھا جبکہ زمین کافروں سے بھری تھی اور وصیت سے ورثہ بٹتا تھا، ورثے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے، پھر وصیت منسوخ ہوگئی ورثے کے احکام اترے اور لوگوں نے ان پر عمل درآمد شروع کردیا، پھر یہ بھی کہ ان دونوں غیر مسلموں کو وصی بنایا جائے گا یا گواہ ؟ حضرت ابن مسعود کا قول ہے کہ یہ حکم اس شخص کے بارے میں ہے جو سفر میں ہو اور وہیں اجل آجائے اور مال اس کے پاس ہو پس اگر دو مسلمان اسے مل جائیں تو انہیں اپنا مال سونپ دے اور دو گواہ مسلمان مقرر کرلے، اس قول کے مطابق تو یہ دونوں وصی ہوئے، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ دونوں گواہ ہوں گے، آیت کے الفاظ کا ظاہر مطلب بھی یہی معلوم ہوتا ہے، ہاں جس صورت میں ان کے ساتھ اور گواہ نہ ہوں تو یہی وصی ہوں گے اور یہی گواہ بھی ہوں گے امام ابن جریر نے ایک مشکل اس میں یہ بیان کی ہے کہ شریعت کے کسی حکم میں گواہ پر قسم نہیں۔ لیکن ہم کہتے ہیں یہ ایک حکم ہے جو مستقل طور پر بالکل علیحدہ صورت میں ہے اور احکام کا قیاس اس پر جاری نہیں ہے، یہ ایک خاص شہادت خاص موقعہ کی ہے اس میں اور بھی بہت سی ایسی باتیں جو دوسرے احکام میں نہیں۔ پس شک کے قرینے کے وقت اس آیت کے حکم کے مطابق ان گواہوں پر قسم لازم آتی ہے، نماز کے بعد ٹھہرا لو سے مطلب نماز عصر کے بعد ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ نماز سے مراد مسلمانوں کی نماز ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے مذہب کی نماز، مقصود یہ ہے کہ انہیں نماز کے بعد لوگوں کی موجودگی میں کھڑا کیا جائے اور اگر خیانت کا شک ہو تو ان سے قسم اٹھوائی جائے وہ کہیں کہ اللہ کی قسم ہم اپنی قسموں کو کسی قیمت بیچنا نہیں چاہتے۔ دنیوی مفاد کی بنا پر جھوٹی قسم نہیں کھاتے چاہے ہماری قسم سے کسی ہمارے قریبی رشتہ دار کو نقصان پہنچ جائے تو پہنچ جائے لیکن ہم جھوٹی قسم نہیں کھائیں گے اور نہ ہم سچی گواہی چھپائیں گے، اس گواہی کی نسبت اللہ کی طرف اس کی عزت و عظمت کے اظہار کیلئے ہے بعض نے اسے قسم کی بنا پر مجرور پڑھا ہے لیکن مشہور قرأت پہلی ہی ہے وہ ساتھ ہی یہ بھی کہیں کہ اگر ہم شہادت کو بدلیں یا الٹ پلٹ کریں یا کچھ حصہ چھپالیں تو ہم بھی گنہگار، پھر اگر یہ مشہور ہو یا ظاہر ہوجائے یا اطلاع مل جائے کہ ان دونوں نے مرنے والے کے مال میں سے کچھ چرا لیا یا کسی قسم کی خیانت کی۔ اولیان کی دوسری قرأت اولان بھی ہے مطلب یہ ہے کہ جب کسی خبر صحیح سے پتہ چلے کہ ان دونوں نے کوئی خیانت کی ہے تو میت کے وارثوں میں سے جو میت کے زیادہ نزدیک ہوں وہ دو شخص کھڑے ہوں اور حلیفہ بیان دیں کہ ہماری شہادت ہے کہ انہوں نے چرایا اور یہی زیادہ حق زیادہ صحیح اور پوری سچی بات ہے، ہم ان پر جھوٹ نہیں باندھتے اگر ہم ایسا کریں تو ہم ظالم، یہ مسئلہ اور قسامت کا مسئلہ اس بارے میں بہت ملتا جلتا ہے، اس میں بھی مقتول کے اولیاء قسمیں کھاتے ہیں، تمیم داری سے منقول ہے کہ اور لوگ اس سے بری ہیں صرف میں اور عدی بن بداء اس سے متعلق ہیں، یہ دونوں نصرانی تھے اسلام سے پہلے ملک شام میں بغرض تجارت آتے جاتے تھے ابن سہم کے مولی بدیل بن ابو مریم بھی مال تجارت لے کر شام کے ملک گئے ہوئے تھے ان کے ساتھ ایک چاندی کا جام تھا، جسے وہ خاص بادشاہ کے ہاتھ فروخت کرنے کیلئے لے جا رہے تھے۔ اتفاقاً وہ بیمار ہوگئے ان دونوں کو وصیت کی اور مال سونپ دیا کہ یہ میرے وارثوں کو دے دینا اس کے مرنے کے بعد ان دونوں نے وہ جام تو مال سے الگ کردیا اور ایک ہزار درہم میں بیچ کر آدھوں آدھ بانٹ لئے باقی مال واپس لا کر بدیل کے رشتہ داروں کو دے دیا، انہوں نے پوچھا کہ چاندی کا جام کیا ہوا ؟ دونوں نے جواب دیا ہمیں کیا خبر ؟ ہمیں تو جو دیا تھا وہ ہم نے تمہیں دے دیا۔ حضرت تمیم داری ؓ فرماتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ مدینے میں آئے اور اسلام نے مجھ پر اثر کیا، میں مسلمان ہوگیا تو میرے دل میں خیال آیا کہ یہ انسانی حق مجھ پر رہ جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں میں پکڑا جاؤں گا تو میں بدیل کے وارثان کے پاس آیا اور اس سے کہا پانچ سو درہم جو تو نے لے لئے ہیں وہ بھی واپس کر آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ اس سے قسم لی جائے اس پر یہ آیت اتری اور عمرو بن عاص نے اور ان میں سے ایک اور شخص نے قسم کھائی عدی بن بداء کو پانچ سو درہم دینے پڑے (ترمذی) ایک روایت میں ہے کہ عدی جھوٹی قسم بھی کھا گیا تھا اور روایت میں ہے کہ اس وقت ارض شام کے اس حصے میں کوئی مسلمان نہ تھا، یہ جام چاندی کا تھا اور سونے سے منڈھا ہوا تھا اور مکہ میں سے جام خریدا گیا تھا جہاں سے ملا تھا انہوں نے بتایا تھا کہ ہم نے اسے تمیم اور عدی سے خریدا ہے، اب میت کے دو وارث کھڑے ہوئے اور قسم کھائی، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ایک روایت میں ہے کہ قسم عصر کی نماز کے بعد اٹھائی تھی ابن جریر میں ہے کہ ایک مسلمان کی وفات کا موقعہ سفر میں آیا، جہاں کوئی مسلمان اسے نہ ملا تو اس نے اپنی وصیت پر دو اہل کتاب گواہ رکھے، ان دونوں نے کوفے میں آ کر حضرت ابو موسیٰ اشعری کے سامنے شہادت دی وصیت بیان کی اور ترکہ پیش کیا حضرت ابو موسیٰ اشعری نے فرمایا آنحضرت ﷺ کے بعد یہ واقعہ پہلا ہے پس عصر کی نماز کے بعد ان سے قسم لی کہ نہ انہوں نے خیانت کی ہے، نہ جھوٹ بولا ہے، نہ بدلا ہے، نہ چھپایا ہے، نہ الٹ پلٹ کیا ہے بلکہ سچ وصیت اور پورا ترکہ انہوں نے پیش کردیا ہے آپ نے ان کی شہادت کو مان لیا، حضرت ابو موسیٰ کے فرمان کا مطلب یہی ہے کہ ایسا واقعہ حضور کے زمانے میں تمیم اور عدی کا ہوا تھا اور اب یہ دوسرا اس قسم کا واقع ہے، حضرت تمیم بن داری ؓ کا اسلام سنہ009ہجری کا ہے اور یہ آخری زمانہ ہے۔ سدی فرماتے ہیں لازم ہے کہ موت کے وقت وصیت کرے اور دو گواہ رکھے اگر سفر میں ہے اور مسلمان نہیں ملتے تو خیر غیر مسلم ہی سہی۔ انہیں وصیت کرے اپنا مال سونپ دے، اگر میت کے وارثوں کو اطمینان ہوجائے تو خیر آئی گئی بات ہوئی ورنہ سلطان اسلام کے سامنے وہ مقدمہ پیش کردیا جائے، اوپر جو واقعہ بیان ہوا اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابو موسیٰ نے ان سے عصر کے بعد قسم لینی چاہی تو آپ سے کہا گیا کہ انہیں عصر کے بعد کی کیا پرواہ ؟ ان سے ان کی نماز کے وقت قسم لی جائے اور ان سے کہا جائے کہ اگر تم نے کچھ چھپا یا یا خیانت کی تو ہم تمہیں تمہاری قوم میں رسوا کردیں گے اور تمہاری گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے گی اور تمہیں سنگین سزا دی جائے گی، بہت ممکن ہے کہ اس طرح ان کی زبان سے حق بات معلوم ہوجائے پھر بھی اگر شک شبہ رہ جائے اور کسی اور طریق سے ان کی خیانت معلوم ہوجائے تو مرحوم کے دو مسلمان وارث قسمیں کھائیں کہ ان کافروں کی شہادت غلط ہے تو ان کی شہادت غلط مان لی جائے گی اور ان سے ثبوت لے کر فیصلہ کردیا جائے گا پھر بیان ہوتا ہے کہ اس صورت میں فائدہ یہ ہے کہ شہادت ٹھیک ٹھیک آجائے گی ایک تو اللہ کی قسم کا لحاظ ہوگا دوسرے لوگوں میں رسوا ہونے کا ڈر رہے گا، لوگو ! اللہ تعالیٰ سے اپنے سب کاموں میں ڈرتے رہو اس کی باتیں سنتے رہو اور مانتے چلے جاؤ، جو لوگ اس کے فرمان سے ہٹ جائیں اور اس کے احکام کے خلاف چلیں وہ راہ راست نہیں پاتے۔
But if it be discovered if it be ascertained after they have sworn their oaths that both of them have merited the suspicion of sin that is that they have done something to incur it in the way of a breach of faith or perjury in the testimony; for example if what they are accused of is found with them and then they claim that they had bought it from the deceased or that he had bequeathed it to them then two others shall take their place so that the oaths are to be taken from them being the nearest al-awlayān is a substitution for ākharān ‘two others’; a variant reading has al-awwalīn plural of awwal as an adjectival qualification of or a substitution for alladhīna ‘of those’ in kinship to the deceased of those most concerned with the bequest namely the inheritors and they shall swear by God to the breach of faith of the two witnesses and they shall both say ‘Verily our testimony our oath is truer is more faithful than their testimony their oath and we have not transgressed we have not overstepped the bounds of truth in our oaths for then we would assuredly be among the evildoers’ meaning let the one about to die call two men as witnesses to his bequest or let him instruct in his bequest that the two be from among his co-religionists or from among others if he cannot find any from among the former because he is travelling or for some similar reason. If the inheritors have doubts about the two men and claim a breach of faith on the part of the two for having taken something or given it to some other person — alleging that the deceased bequeathed it to him — then let the two men swear in full in the way mentioned above. If then some indication surfaces that the two men have been lying and these two then claim some motivation for this action of theirs the nearest of the inheritors in kinship to the deceased shall swear to the perjury of the two men and to the truth of what they the inheritors suspected. This stipulation holds for the two trustees but is abrogated in the case of the two witnesses. Likewise the testimony of non co-religionists is abrogated.