Those among you who have proclaimed their wives as their mothers – so their wives are not their mothers; their mothers are only those that gave them birth; and undoubtedly they utter evil and a blatant lie; and indeed Allah is Most Pardoning, Oft Forgiving. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
الذين يُظاهرون منكم من نسائهم، فيقول الرجل منهم لزوجته: "أنت عليَّ كظهر أمي" -أي في حرمة النكاح- قد عصوا الله وخالفوا الشرع، ونساؤهم لَسْنَ في الحقيقة أمهاتهم، إنما هن زوجاتهم، ما أمهاتهم إلا اللائي ولدنهم. وإن هؤلاء المظاهِرين ليقولون قولا كاذبًا فظيعًا لا تُعرف صحته. وإن الله لعفو غفور عمَّن صدر منه بعض المخالفات، فتداركها بالتوبة النصوح.
خولہ اور خویلہ بنت ثعلبہ ؓ اور مسئلہ ظہار حضرت خولہ بنت ثعلبہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم میرے اور میرے خاوند اوس بن صامت کے بارے میں اس سورة مجادلہ کی شروع کی چار آیتیں اتری ہیں، میں ان کے گھر میں تھی یہ بوڑھے اور بڑی عمر کے تھے اور کچھ اخلاق کے بھی اچھے نہ تھے، ایک دن باتوں ہی باتوں میں میں نے ان کی کسی بات کے خلاف کہا اور انہیں کچھ جواب دیا، جس پر وہ بڑے غضب ناک ہوئے اور غصے میں فرمانے لگے تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے پھر گھر سے چلے گئے اور قومی مجلس میں کچھ دیر بیٹھے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے خاص بات چیت کرنی چاہی، میں نے کہا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں خولہ کی جان ہے تمہارے اس کہنے کے بعد اب یہ بات ناممکن ہے یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ ہمارے بارے میں نہ ہو، لیکن وہ نہ مانے اور زبردستی کرنے لگے مگر چونکہ کمزور اور ضعیف تھے میں ان پر غالب آگئی اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے، میں اپنی پڑوسن کے ہاں گئی اور اس سے کپڑا مانگ کر اوڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچی، اس واقعہ کو بیان کیا اور بھی اپنی مصیبتیں اور تکلیفیں بیان کرنی شروع کردیں، آپ یہی فرماتے جاتے تھے خولہ اپنے خاوند کے بارے میں اللہ سے ڈرو وہ بوڑھے بڑے ہیں، ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ آنحضرت ﷺ پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی، جب وحی اترچکی تو آپ ﷺ نے فرمایا اے خولہ تیرے اور تیرے خاوند کے بارے میں قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوئی ہیں، پھر آپ نے آیت (قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا وَتَشْـتَكِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ڰ وَاللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا) 58۔ المجادلة :1) تک پڑھ سنایا اور فرمایا جاؤ اپنے میاں سے کہو کہ ایک غلام آزاد کریں، میں نے کہا حضور ﷺ ان کے پاس غلام کہاں ؟ وہ تو بہت مسکین شخص ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا اچھا تو دو مہینے کے لگاتار روزے رکھ لیں، میں نے کہا حضور ﷺ وہ تو بڑی عمر کے بوڑھے ناتواں کمزور ہیں انہیں دو ماہ کے روزوں کی بھی طاقت نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا پھر ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق (تقریباً چار من پختہ) کھجوریں دے دیں، میں نے کہا حضور ﷺ اس مسکین کے پاس یہ بھی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اچھا آدھا وسق کھجوریں میں اپنے پاس سے انہیں دیدوں گا میں نے کہا بہتر آدھا وسق میں دیدوں گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ تم نے بہت اچھا کیا اور خوب کام کیا، جاؤ یہ ادا کردو اور اپنے خاوند کے ساتھ جو تمہارے چچا کے لڑکے ہیں محبت، پیار، خیر خواہی اور فرمانبرداری سے گزارا کرو (مسند احمد و ابو داؤد)۔ ان کا نام بعض روایتوں میں خولہ کے بجائے خولہ بھی آیا ہے اور بنت ثعلبہ کے بدلے بنت مالک بن ثعلبہ بھی آیا ہے، ان اقوال میں کوئی ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو، واللہ اعلم۔ اس سورت کی ان شروع کی آیتوں کا صحیح شان نزول یہی ہے۔ حضرت سلمہ بن صخر ؓ کا واقعہ جو اب آ رہا ہے وہ اس کے اترنے کا باعث نہیں ہوا ہاں البتہ جو حکم ظہار ان آیتوں میں تھا انہیں بھی دیا گیا یعنی غلام آزاد کرنا یا روزے رکھنا یا کھانا دینا، حضرت سلمہ بن صخر انصاری ؓ کا واقعہ خود ان کی زبانی یہ ہے کہ مجھے جماع کی طاقت اوروں سے بہت زیادہ تھی، رمضان میں اس خوف سے کہ کہیں ایسا نہ ہو دن میں روزے کے وقت میں بچ نہ سکوں میں نے رمضان بھر کیلئے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا، ایک رات جبکہ وہ میری خدمت میں مصروف تھی بدن کے کسی حصہ پر سے کپڑا ہٹ گیا پھر تاب کہاں تھی ؟ اس سے بات چیت کر بیٹھا صبح اپنی قوم کے پاس آکر میں نے کہا رات ایسا واقعہ ہوگیا ہے تم مجھے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس چلو اور آپ سے پوچھو کہ اس گناہ کا بدلہ کیا ہے ؟ سب نے انکار کیا اور کہا کہ ہم تو تیرے ساتھ نہیں جائیں گے ایسا نہ ہو کہ قرآن کریم میں اس کی بابت کوئی آیت اترے یا حضور ﷺ کوئی ایسی بات فرما دیں کہ ہمیشہ کیلئے ہم پر عار باقی رہ جائے، تو جانے تیرا کام، تو نے ایسا کیوں کیا ؟ ہم تیرے ساتھی نہیں، میں نے کہا اچھا پھر میں اکیلا جاتا ہوں۔ چناچہ میں گیا اور حضور ﷺ سے تمام واقعہ بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا تم نے ایسا کیا ؟ میں نے کہا جی ہاں حضور مجھ سے ایسا ہوگیا۔ آپ نے پھر فرمایا تم نے ایسا کیا ؟ میں نے پھر یہی عرض کیا کہ حضور ﷺ مجھ سے یہ خطا ہوگئی، آپ ﷺ نے تیسری دفعہ بھی یہی فرمایا میں نے پھر اقرار کیا اور کہا کہ حضور ﷺ میں موجود ہوں جو سزا میرے لئے تجویز کی جائے میں اسے صبر سے برداشت کروں گا آپ ﷺ حکم دیجئے، آپ نے فرمایا جاؤ ایک غلام آزاد کرو، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھ کر کہا حضور ﷺ میں تو صرف اس کا مالک ہوں اللہ کی قسم مجھے غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا پھر دو مہینے کے پے درپے روزے رکھو، میں نے کہا یارسول اللہ ﷺ روزوں ہی کی وجہ سے تو یہ ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا پھر جاؤ صدقہ کرو میں نے کہا اس اللہ کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میرے پاس کچھ نہیں بلکہ آج کی شب سب گھر والوں نے فاقہ کیا ہے، پھر فرمایا اچھا بنو رزیق کے قبیلے کے صدقے والے کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ صدقے کا مال تمہیں دیدیں تم اس میں سے ایک وسق کھجور تو ساٹھ مسکینوں کو دیدو اور باقی تم آپ اپنے اور اپنے بال بچوں کے کام میں لاؤ، میں خوش خوش لوٹا اور اپنی قوم کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ تمہارے پاس تو میں نے تنگی اور برائی پائی اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے پاس میں نے کشادگی اور برکت پائی۔ حضور ﷺ کا حکم ہے کہ اپنے صدقے تم مجھے دیدو چناچہ انہوں نے مجھے دے دیئے (مسند احمد ابو داؤد وغیرہ) بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت اوس بن صامت اور ان کی بیوی صاحبہ حضرت خویلہ بنت ثعلبہ کے واقعہ کے بعد کا ہے، چناچہ حضرت ابن عباس کا فرمان ہے کہ ظہار کا پہلا واقعہ حضرت اوس بن صامت کا ہے جو حضرت عبادہ بن صامت کے بھائی تھے، ان کی بیوی صاحبہ کا نام خولہ بنت ثعلبہ بن مالک رضی الہ تعالیٰ عنہا تھا، اس واقعہ سے حضرت خولہ کو ڈر تھا کہ شاید طلاق ہوگئی، انہوں نے آکر حضور ﷺ سے کہا کہ میرے میاں نے مجھ سے ظہار کرلیا ہے اور اگر ہم علیحدہ علیحدہ ہوگئے تو دونوں برباد ہوجائیں گے میں اب اس لائق بھی نہیں رہی کہ مجھے اولاد ہو ہمارے اس تعلق کو بھی زمانہ گزر چکا اور بھی اسی طرح کی باتیں کہتی جاتی تھیں اور روتی جاتی تھیں، اب تک ظہار کا کوئی حکم اسلام میں نہ تھا اس پر یہ آیتیں شروع سورت سے الیم تک اتریں۔ حضور ﷺ نے حضرت اوس کو بلوایا اور پوچھا کہ کیا تم غلام آزاد کرسکتے ہو ؟ انہوں نے قسم کھاکر انکار کیا حضور ﷺ نے ان کیلئے رقم جمع کی انہوں نے اس سے غلام خرید کر آزاد کیا اور اپنی بیوی صاحبہ سے رجوع کیا (ابن جریر) حضرت ابن عباس کے علاوہ اور بھی بہت سے بزرگوں کا یہ فرمان ہے کہ یہ آیتیں انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، واللہ اعلم۔ لفظ ظہار ظہر سے مشٹق ہے چونکہ اہل جاہلیت اپنی بیوی سے ظہار کرتے وقت یوں کہتے تھے کہ انت علی کظھر امی یعنی تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ، شریعت میں حکم یہ ہے کہ اس طرح خواہ کسی عضو کا نام لے ظہار ہوجائے گا، ظہار جاہلیت کے زمانے میں طلاق سمجھا جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس امت کیلئے اس میں کفارہ مقرر کردیا اور اسے طلاق شمار نہیں کیا جیسے کہ جاہلیت کا دستور تھا۔ سلف میں سے اکثر حضرات نے یہی فرمایا ہے، حضرت ابن عباس جاہلیت کے اس دستور کا ذکر کرکے فرماتے ہیں اسلام میں جب حضرت خویلہ والا واقعہ پیش آیا اور دونوں میاں بیوی پچھتانے لگے تو حضرت اوس نے اپنی بیوی صاحبہ کو حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا یہ جب آئیں تو دیکھا کہ آپ کنگھی کر رہے ہیں، آپ نے واقعہ سن کر فرمایا ہمارے پاس اس کا کوئی حکم نہیں اتنے میں یہ آیتیں اتریں اور آپ ﷺ نے حضرت خویلہ ؓ کو اس کی خوشخبری دی اور پڑھ سنائیں، جب غلام کو آزاد کرنے کا ذکر کیا تو عذر کیا کہ ہمارے پاس غلام نہیں، پھر روزوں کا ذکر سن کر کہا اگر ہر روز تین مرتبہ پانی نہ پئیں تو بوجہ اپنے بڑھاپے کے فوت ہوجائیں، جب کھانا کھلانے کا ذکر سنا تو کہا چند لقموں پر تو سارا دن گزرتا ہے تو اوروں کو دینا کہاں ؟ چناچہ حضور ﷺ نے آدھا وسق تیس صاع منگواکر انہیں دیئے اور فرمایا اسے صدقہ کردو اور اپنی بیوی سے رجوع کرلو (ابن جریر) اس کی اسناد قوی اور پختہ ہے، لیکن ادائیگی غربت سے خالی نہیں۔ حضرت ابو العالیہ سے بھی اسی طرح مروی ہے، فرماتے ہیں خولہ بنت دلیج ایک انصاری کی بیوی تھیں جو کم نگاہ والے مفلس اور کج خلق تھے، کسی دن کسی بات پر میاں بیوی میں جھگڑا ہوگیا تو جاہلیت کی رسم کے مطابق ظہار کرلیا جو ان کی طلاق تھی۔ یہ بیوی صاحبہ حضور ﷺ کے پاس پہنچیں اس وقت آپ عائشہ کے گھر میں تھے اور ام المومنین آپ کا سر دھو رہی تھیں، جاکر سارا واقعہ بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا اب کیا ہوسکتا ہے، میرے علم میں تو تو اس پر حرام ہوگئی یہ سن کر کہنے لگیں اللہ میری عرض تجھ سے ہے، اب حضرت عائشہ آپ کے سر مبارک کا ایک طرف کا حصہ دھو کر گھوم کر دوسری جانب آئیں اور ادھر کا حصہ دھونے لگیں تو حضرت خولہ بھی گھوم کر اس دوسری طرف آ بیٹھیں اور اپنا واقعہ دوہرایا، آپ ﷺ نے پھر یہی جواب دیا، ام المومنین نے دیکھا کہ آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا ہے تو ان سے کہا کہ دور ہٹ کر بیٹھو، یہ دور کھسک گئیں ادھر وحی نازل ہونی شروع ہوئی جب اتر چکی تو آپ نے فرمایا وہ عورت کہاں ہے ؟ ام المومنین نے انہیں آواز دے کر بلایا۔ آپ نے فرمایا جاؤ اپنے خاوند کو لے آؤ، یہ دوڑتی ہوئی گئیں اور اپنے شوہر کو بلا لائیں تو واقعی وہ ایسے ہی تھے جیسے انہوں نے کہا تھا، آپ نے استعیذ باللہ السمیع العلیم بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اس سورت کی یہ آیتیں سنائیں، اور فرمایا تم غلام آزاد کرسکتے ہو ؟ انہوں نے کہا نہیں، کہا دو مہینے کے لگاتار ایک کے پیچھے ایک روزے رکھ سکتے ہو ؟ انہوں نے قسم کھاکر کہا کہ اگر دو تین دفعہ دن میں نہ کھاؤں تو بینائی بالکل جاتی رہتی ہے، فرمایا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا دے سکتے ہو ؟ انہوں نے کہا نہیں لیکن اگر آپ میری امداد فرمائیں تو اور بات ہے، پس حضور ﷺ نے ان کی اعانت کی اور فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھلادو اور جاہلیت کی اس رسم طلاق کو ہٹا کر اللہ تعالیٰ نے اسے ظہار مقرر فرمایا (ابن ابی حاتم و ابن جریر) حضرت سعید بن جبیر ؒ فرماتے ہیں ایلا اور ظہار جاہلیت کے زمانہ کی طلاقیں تھیں، اللہ تعالیٰ نے ایلا میں تو چار مہینے کی مدت مقرر فرمائی اور ظہار میں کفارہ مقرر فرمایا۔ حضرت امام مالک ؒ نے لفظ منکم سے استدلال کیا ہے کہ چونکہ یہاں خطاب مومنوں سے ہے اسلئے اس حکم میں کافر داخل نہیں، جمہور کا مذہب اس کے برخلاف ہے وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ بہ اعتبار غلبہ کے کہہ دیا گیا ہے اس لئے بطور قید کے اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں لے سکتے، لفظ من نسائھم سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ لونڈی سے ظہار نہیں نہ وہ اس خطاب میں داخل ہے۔ پھر فرماتا ہے اس کہنے سے کہ تو مجھ پر میری ماں کی طرح ہے یا میرے لئے تو مثل میری ماں کے ہے یا مثل میری ماں کی پیٹھ کے ہے یا اور ایسے ہی الفاظ اپنی بیوی کو کہہ دینے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتی، حقیقی ماں تو وہی ہے جس کے بطن سے یہ تولد ہوا ہے، یہ لوگ اپنے منہ سے فحش اور باطل قول بول دیتے ہیں اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور بخشش دینے والا ہے۔ اس نے جاہلیت کی اس تنگی کو تم سے دور کردیا، اسی طرح ہر وہ کلام جو ایک دم زبان سے بغیر سوچے سمجھے اور بلا قصد نکل جائے۔ چناچہ ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ حضور ﷺ نے سنا کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کہہ رہا ہے اے میری بہن تو آپ نے فرمایا یہ تیری بہن ہے ؟ غرض یہ کہنا برا لگا اسے روکا مگر اس سے حرمت ثابت نہیں کی کیونکہ دراصل اس کا مقصود یہ نہ تھا یونہی زبان سے بغیر قصد کے نکل گیا تھا ورنہ ضرور حرمت ثابت ہوجاتی، کیونکہ صحیح قول یہی ہے کہ اپنی بیوی کو جو شخض اس نام سے یاد کرے جو محرمات ابدیہ ہیں مثلاً بہن یا پھوپھی یا خالہ وغیرہ تو وہ بھی حکم میں ماں کہنے کے ہیں۔ جو لوگ ظہار کریں پھر اپنے کہنے سے لوٹیں اس کا مطلب ایک تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ظہار کیا پھر مکرر اس لفظ کو کہا لیکن یہ ٹھیک نہیں، بقول حضرت امام شافعی مطلب یہ ہے کہ ظہار کیا پھر اس عورت کو روک رکھا یہاں تک کہ اتنا زمانہ گزر گیا کہ اگر چاہتا تو اس میں باقاعدہ طلاق دے سکتا تھا لیکن طلاق نہ دی۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ پھر لوٹے جماع کی طرف یا ارادہ کرے تو یہ حلال نہیں تاوقتیکہ مذکورہ کفارہ ادا نہ کرے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ مراد اس سے جماع کا ارادہ یا پھر بسانے کا عزم یا جماع ہے۔ امام ابوحنیفہ وغیرہ کہتے ہیں مراد ظہار کی طرف لوٹنا ہے اس کی حرمت اور جاہلیت کے حکم کے اٹھ جانے کے بعد پس جو شخص اب ظہار کرے گا اس پر اس کی بیوی حرام ہوجائے گی جب تک کہ یہ کفارہ ادا نہ کرے، حضرت سعید فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ جس چیز کو اس نے اپنی جان پر حرام کرلیا تھا اب پھر اس کام کو کرنا چاہے تو اس کا کفارہ ادا کرے۔ حضرت حسن بصری کا قول ہے کہ مجامعت کرنا چاہے ورنہ اور طرح چھونے میں قبل کفارہ کے بھی ان کے نزدیک کوئی حرج نہیں۔ ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں یہاں مس سے مراد صحبت کرنا ہے۔ زہری فرماتے ہیں کہ ہاتھ لگانا پیار کرنا بھی کفارہ کی ادائیگی سے پہلے جائز نہیں۔ سنن میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ ﷺ میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے میں اس سے مل لیا آپ نے فرمایا اللہ تجھ پر رحم کرے ایسا تو نے کیوں کیا ؟ کہنے لگا یارسول اللہ ﷺ چاندنی رات میں اس کے خلخال کی چمک نے مجھے بےتاب کردیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اب اس سے قربت نہ کرنا جب تک کہ اللہ کے فرمان کے مطابق کفارہ ادا نہ کردے، نسائی میں یہ حدیث مرسلاً مروی ہے اور امام نسائی ؒ مرسل ہونے کو اولیٰ بتاتے ہیں۔ پھر کفارہ بیان ہو رہا ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، ہاں یہ قید نہیں کہ مومن ہی ہو جیسے قتل کے کفارے میں غلام کے مومن ہونے کی قید ہے۔ امام شافعی تو فرماتے ہیں یہ مطلق اس مقید پر محمول ہوگی کیونکہ غلام کو آزاد کرنے کی شرط جیسی وہاں ہے ایسی ہی یہاں بھی ہے، اس کی دلیل یہ حدیث بھی ہے کہ ایک سیاہ فام لونڈی کی بابت حضور ﷺ نے فرمایا تھا اسے آزاد کردو یہ مومنہ ہے، اوپر واقعہ گزر چکا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہار کرکے پھر کفارہ سے قبل واقع ہونے والے کو آپ نے دوسرا کفارہ ادا کرنے کو نہیں فرمایا۔ پھر فرماتا ہے اس سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے یعنی دھمکایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مصلحتوں سے خبردار ہے اور تمہارے احوال کا عالم ہے۔ جو غلام کو آزاد کرنے پر قادر نہ ہو وہ دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنے کے بعد اپنی بیوی سے اس صورت میں مل سکتا ہے اور اگر اس کا بھی مقدور نہ ہو تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا دینے کے بعد، پہلے حدیثیں گزر چکیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مقدم پہلی صورت پھر دوسری پھر تیسری، جیسے کہ بخاری و مسلم کی اس حدیث میں بھی ہے جس میں آپ نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کرنے والے کو فرمایا تھا۔ ہم نے یہ احکام اس لئے مقرر کئے ہیں کہ تمہارا کامل ایمان اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ہوجائے۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اس کے محرمات ہیں خبردار اس حرمت کو نہ توڑنا۔ جو کافر ہوں یعنی ایمان نہ لائیں حکم برداری نہ کریں شریعت کے احکام کی بےعزتی کریں ان سے لاپرواہی برتیں انہیں بلاؤں سے بچنے والا نہ سمجھو بلکہ ان کیلئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں۔
Those of you who repudiate their wives by zihār yazzahharūna is actually yatazahharūna in which the tā’ has been assimilated with the zā’; a variant reading has yazzāharūna and still another has yuzāhirūna similar in form to yuqātilūna; the same applies for the second instance of this verb below they are not their mothers; their mothers are only those who read allā’ī or without the final long yā’ allā’i gave birth to them and indeed they in repudiating them by zihār utter indecent words and a calumny a lie. Yet assuredly God is Pardoning Forgiving to the one who repudiates by zihār through an atonement which he must offer.