Indeed in them lay a good example for you to follow – for one who looks forward to (meeting) Allah and the Last Day; and whoever turns away – then (know that) indeed Allah only is the Independent, the Most Praiseworthy. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
لقد كان لكم- أيها المؤمنون- في إبراهيم عليه السلام والذين معه قدوة حميدة لمن يطمع في الخير من الله في الدنيا والآخرة، ومن يُعْرِض عما ندبه الله إليه من التأسي بأنبيائه، ويوال أعداء الله، فإن الله هو الغنيُّ عن عباده، الحميد في ذاته وصفاته، المحمود على كل حال.
عصبیت دین ایمان کا جزو لاینفک ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کفار سے موالات اور دوستی نہ کرنے کی ہدایت فرما کر ان کے سامنے اپنے خلیل اور ان کے اصحاب کا نمونہ پیش کر رہا ہے کہ انہوں نے صاف طور پر اپنے رشتہ کنبے اور قوم کے لوگوں سے برملا فرما دیا کہ ہم تم سے اور جنہیں تم پوجتے ہو ان سے بیزار بری الذمہ اور الگ تھلگ ہیں، ہم تمہارے دین اور طریقے سے متنفر ہیں، جب تک تم اسی طریقے اور اسی مذہب پر ہو تم ہمیں اپنا دشمن سمجھوناممکن ہے کہ برادری کی وجہ سے ہم تمہارے اس کفر کے باوجود تم سے بھائی چارہ اور دوستانہ تعلقات رکھیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تم اللہ وحدہ لاشریک لہ پر ایمان لے آؤ اس کی توحید کو مان لو اور اسی ایک عی ابدت شروع کردو اور جن جن کو تم نے اللہ کا شریک اور ساجھی ٹھہرا رکھا ہے اور جن جن کی پوجا پاٹ میں مشغول ہو ان سب کو ترک کردو اپنی اس روش کفر اور طریق شرک سے ہٹ جاؤ تم پھر بیشک ہمارے بھائی ہو ہمارے عزیز ہو ورنہ ہم میں تم میں کوئی اتحاد و اتفاق نہیں ہم تم سے اور تم ہم سے علیحدہ ہو، ہاں یہ یاد رہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے والد سے جو استغفار کا وعدہ کیا تھا اور پھر اسے پورا کیا اس میں ان کی اقتداء نہیں، اس لئے کہ یہ استغفار اس وقت تک رہا جس وقت تک کہ اپنے والد کا دشمن اللہ ہونا ان پر وضاحت کے ساتھ ظاہر نہ ہوا تھا جب انہیں یقینی طور پر اس کی اللہ سے دشمنی کھل گئی تو اس سے صاف بیزاری ظاہر کردی، بعض مومن اپنے مشرک ماں باپ کے لئے دعاء و استغفار کرتے تھے اور سند میں حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے والد کے لئے دعا مانگنا پیش کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فرمان (ترجمہ) پوری دو آیتوں تک نازل فرمایا اور یہاں بھی اسوہ ابراہیمی میں سے اس کا استثناء کرلیا کہ اس بات میں ان کی پیروی تمہارے لئے ممنوع ہے اور حضرت ابراہیم کے اس استغفار کی تفصیل بھی کردی اور اس کا خاص سبب اور خاص وقت بھی بیان فرما دیا، حضرت ابن عباس مجاہد قتادہ مقاتل بن حیان صحاک وغیرہ نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ قوم سے برات کر کے اب اللہ کی بار گاہ میں آتے ہیں اور جناب باری میں عاجزی اور انکساری سے عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ تمام کاموں میں ہمارا بھروسہ اور اعتماد تیری ہی پاک ذات پر ہے ہم اپنے تمام کام تجھے سونپتے ہیں تیری طرف رجوع ورغبت کرتے ہیں، دار آخرت میں بھی ہمیں تیری ہی جانب لوٹنا ہے۔ پھر کہتے ہیں الٰہی تو ہمیں کافروں کے لئے فتنہ نہ بنا، یعنی ایسا نہ ہو کہ یہ ہم پر غالب آ کر ہمیں مصیبت میں مبتلا کردیں، اسیط رح یہ بھی نہ ہو کہ تیری طرف سے ہم پر کوئی عتاب و عذاب نازل ہو اور وہ ان کے اور بہکنے کا سبب بنے کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو اللہ انہیں عذاب کیوں کرتا ؟ اگر یہ کسی میدان میں جیت گئے تو بھی ان کے لئے یہ فتنہ کا سبب ہوگا وہ سمجھیں گے کہ ہمیں اس لئے غالب آئے کہ ہم ہی حق پر ہیں، اسیطرح اگر یہ ہم پر غالب آگئے تو ایسا نہ ہو کہ ہمیں تکلیفیں پہنچا پہنچا کر تیرے دین سے برگشتہ کردیں۔ پھر دعا مانگتے ہیں کہ الٰہی ہمارے گناہوں کو بھی بخش دے، ہماری پردہ پوشی کر اور ہمیں معاف فرما، تو عزیز ہے تیری جناب میں پناہ لینے والا نامراد نہیں پھرتا تیرے در پر دستک دینے والا خالی ہاتھ نہیں جاتا، تو اپنی شریعت کے تقرر میں اپنے اقوال و افعال میں اور قضا و قدر کے مقدر کرنے میں حکمتوں والا ہے، تیرا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ پھر بہ طور تاکید کے وہی پہلی بات دوہرائی جاتی ہے کہ ان میں تمہارے لئے نیک نمونہ ہے جو بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے آنے کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو اسے ان کی اقتداء میں آگے بڑھ کر قدم رکھنا چاہئے اور جو احکام اللہ سے روگردانی کرے وہ جان لے کہ اللہ اس سے بےپرواہ ہے وہ لائق حمد وثناء ہے مخلوق اس خالق کی تعریف میں مشغول ہے، جیسے اور جگہ ہے (ترجمہ) " اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کفر پر اور اللہ کے نہ ماننے پر اتر آئیں تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ تعالیٰ سب سے غنی سب سے بےنیاز اور سب سے بےپرواہ ہے اور وہ تعریف کیا گیا ہے " حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں غنی اسے کہا جاتا ہے جو اپنی غنا میں کامل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر طرح سے بےنیاز اور بالکل بےپرواہ ہے کسی اور کی ذات ایسی نہیں، اس کا کوئی ہمسر نہیں اس کے مثل کوئی اور نہیں وہ پاک ہے اکیلا ہے سب پر حاکم سب پر غالب سب کا بادشاہ ہے، حمید ہے یعنی مخلوق اسے سراہ رہی ہے، اپنے جمیع اقوال میں تمام افعال میں وہ ستائشوں اور تعریفوں والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے سوا کوئی پالنے والا نہیں، رب وہی ہے معبود وہی ہے۔
Verily there is for you O community of Muhammad (s) laqad kāna lakum is the response to an implied oath in them a good example for those of you who li-man kāna is an inclusive substitution for –kum of lakum ‘for you’ with the same preposition li- repeated anticipate God and the Last Day that is for those who fear these two or who expect reward or punishment. And whoever turns away by befriending the disbelievers should know that God is the Independent without need of His creatures the Worthy of Praise to those who obey Him.