Said Sulaiman, “We shall now see whether you spoke the truth or are among the liars.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
قال سليمان للهدهد: سنتأمل فيما جئتنا به من الخبر أصدقت في ذلك أم كنت من الكاذبين فيه؟ اذهب بكتابي هذا إلى أهل "سبأ" فأعطهم إياه، ثم تنحَّ عنهم قريبًا منهم بحيث تسمع كلامهم، فتأمل ما يتردد بينهم من الكلام.
تحقیق شروع ہوگئی ہدہد کی خبر سنتے ہی حضرت سلیمان نے اس کی تحقیق شروع کردی کہ اگر یہ سچا ہے تو قابل معافی اور اگر جھوٹا ہے تو قابل سزا ہے۔ اسی سے فرمایا کہ میرا یہ خط بلقیس کو جو وہاں کی فرمانرواہے دے آ۔ اس خط کو چونچ میں لے کر یا پر سے بندھواکر ہدہد اڑا۔ وہاں پہنچ کر بلقیس کے محل میں گیا وہ اس وقت خلوت خانہ میں تھی۔ اس نے ایک طاق میں سے وہ خط اسکے سامنے رکھا اور ادب کے ساتھ ایک طرف ہوگیا۔ اسے سخت تعجب معلوم ہواحیرت ہوئی اور ساتھ ہی کچھ خوف ودہشت بھی ہوئی۔ ، خط کو اٹھا کر مہر توڑ کر خط کھول کر پڑھا اس کے مضمون سے واقف ہو کر اپنے امراء وزراء سردار اور رؤسا کو جمع کیا اور کہنے لگی کہ ایک باوقعت خط میرے سامنے ڈالا گیا ہے اس خط کا باوقعت ہونا اس پر اس سے بھی ظاہر ہوگیا تھا کہ ایک جانور اسے لاتا ہے وہ ہوشیاری اور احتیاط سے پہنچاتا ہے۔ سامنے با ادب رکھ کر ایک طرف ہوجاتا ہے تو جان گئی تھی کہ یہ خط مکرم ہے اور کسی باعزت شخص کا بھیجا ہوا ہے۔ پھر خط کا مضمون سب کو پڑھ کر سنایا کہ یہ خط حضرت سلیمان کا ہے اور اس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہوا ہے ساتھ ہی مسلمان ہونے اور تابع فرمان بننے کی دعوت ہے۔ اب سب نے پہچان لیا کہ یہ اللہ کے پیغمبر کا دعوت نامہ ہے اور ہم میں سے کسی میں انکے مقابلے کی تاب وطاقت نہیں۔ پھر خط کی بلاغت اختصار اور وضاحت نے سب کو حیران کردیا یہ مختصر سی عبارت بہت سی باتوں سے سوا ہے۔ دریا کو کوزہ میں بند کردیا ہے علماء کرام کا مقولہ ہے کہ حضرت سلیمان ؑ سے پہلے کسی نے خط میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی۔ ایک غریب اور ضعیف حدیث ابن ابنی حاتم میں ہے حضرت بریدہ ؓ فرماتے ہیں میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ جارہا تھا کہ آپ نے فرمایا میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں جو مجھ سے پہلے سلیمان بن داؤد ؑ کے بعد کسی نبی پر نہیں اتری میں نے کہا حضور وہ کونسی آیت ہے ؟ آپ نے فرمایا مسجد سے جانے سے پہلے ہی میں تجھے بتادوں گا اب آپ نکلنے لگے ایک پاؤں مسجد سے باہر رکھ بھی دیا میرے جی میں آیا شاید آپ بھول گئے۔ اتنے میں آپ نے یہی آیت پڑھی۔ اور روایت میں ہے کہ جب تک یہ آیت نہیں اتری تھی حضور ﷺ دعا (باسمک اللہم) تحریر فرمایا کرتے تھے۔ جب یہ آیت اتری آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا شرع کیا خط کا مضمون صرف اسی قدر تھا کہ میرے سامنے سرکشی نہ کرو مجھے مجبور نہ کرو میری بات مان لو تکبر سے کام نہ لو موحد مخلص مطیع بن کر میرے پاس چلی آؤ۔
He Solomon said to the hoopoe ‘We shall see whether you have spoken the truth in what you have informed us or whether you are of the liars that is of their ilk — for to say that is rhetorically more powerful than simply saying ‘or whether you have lied’. He the hoopoe indicated to them the place of the water and it was extracted. They thus drank performed their ablutions and prayed. Solomon then composed a letter in the following form ‘From the servant of God Solomon son of David to Bilqīs Queen of Sheba. In the Name of God the Compassionate the Merciful Peace be upon those who follow Guidance. To wit do not rise up against me in defiance but come to me in submission’. He then stamped it with musk and sealed it with his ring and said to the hoopoe