Those who are misers and preach miserliness to others, and hide what Allah has bestowed upon them from His munificence; and We have kept ready a disgraceful punishment for the disbelievers. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
الذين يمتنعون عن الإنفاق والعطاء مما رزقهم الله، ويأمرون غيرهم بالبخل، ويجحدون نِعَمَ الله عليهم، ويخفون فضله وعطاءه. وأعددنا للجاحدين عذابًا مخزيًا.
اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ سے کترانے والے بخیل لوگ ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کے موقعہ پر مال خرچ کرنے سے جی چراتے ہیں مثلاً ماں باپ کو دینا قرابت داروں سے اچھا سلوک نہیں کرتے یتیم مسکین پڑوسی رشتہ دار غیر رشتہ دار پڑوسی ساتھی مسافر غلام اور ماتحت کو ان کی محتاجی کے وقت فی سبیل اللہ نہیں دیتے اتنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کو بھی بخل اور فی سبیل اللہ خرچ نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کونسی بیماری بخل کی بیماری سے بڑھ کر ہے ؟ اور حدیث میں ہے لوگو بخیلی سے بچو اسی نے تم سے اگلوں کو تاخت و تاراج کیا اسی کے باعث ان سے قطع رحمی اور فسق و فجور جیسے برے کام نمایاں ہوئے پھر فرمایا یہ لوگ ان دونوں برائیوں کے ساتھ ہی ساتھ ایک تیسری برائی کے بھی مرتکب ہیں یعنی اللہ کی نعمتوں کو چھپاتے ہیں انہیں ظاہر نہیں کرتے نہ ان کے کھانے پینے میں وہ ظاہر ہوتی ہیں نہ پہننے اوڑھنے میں نہ دینے لینے میں جیسے اور جگہ ہے (اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ ۚ وَاِنَّهٗ عَلٰي ذٰلِكَ لَشَهِيْدٌ ۚ) 100۔ العادیات :67) یعنی انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے اور وہ خود ہی اپنی اس حالت اور اس خصلت پر گواہ ہے پھر (وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ ۭ) 100۔ العادیات :8) وہ مال کی محبت میں مست ہے، پس یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کے فضل کو یہ چھپاتا رہتا ہے پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے کہ کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز عذاب تیار کر رکھے ہیں، کفر کے معنی ہیں پوشیدہ رکھنا اور چھپالینا پس بخیل بھی اللہ کی نعمتوں کا چھپانے والا ان پر پردہ ڈال رکھنے والا بلکہ ان کا انکار کرنے والے قرار دیا ہے پس وہ نعمتوں کا کافر ہوا، حدیث میں ہے اللہ جب کسی بندے پر اپنی نعمت انعام فرماتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا اثر اس پر ظاہر ہو، دعا نبوی ﷺ میں ہے (حدیث واجعلنا شاکرین لنعمتکم ؒ مثنین بھا علیک قابلیھا واتھما علینا) اے اللہ ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار بنا اور ان کی وجہ سے ہمیں اپنا ثنا خوان بنا ان کا قبول کرنے والا بنا اور ان کی نعمتوں کو ہمیں بھرپور عطا فرما، بعض سلف کا قول ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے اس بخل کے بارے میں ہے جو وہ اپنی کتاب میں حضرت محمد ﷺ کی صفات کے چھپانے میں کرتے تھے اسی لئے اس کے آخر میں ہے کہ کافروں کے لئے ذلت آمیز عذاب ہم نے تیار کر رکھے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اس آیت کا اطلاق ان پر بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ بظاہر یہاں مال کا بخل بیان ہو رہا ہے گو علم کا بخل بھی اس میں بطور اولیٰ داخل ہے۔ خیال کیجئے کہ بیان آیت اقرباضعفا کو مال دینے کے بارے میں ہے اسی طرح اس کے بعد والی آیت میں ریاکاری کے طور پر فی سبیل اللہ مال دینے کی مذمت بھی بیان کی جا رہی ہے۔ پہلے ان کا بیان ہوا جو ممسک اور بخیل ہیں کوڑی کوڑی کو دانتوں سے تھام رکھتے ہیں پھر ان کا بیان ہوا جو دیتے تو ہیں لیکن بدنیتی اور دنیا میں اپنی واہ واہ ہونے کی خاطر دیتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں سے جہنم کی آگ سلگائی جائے گی وہ یہی ریاکار ہوں گے ریاکار عالم ریاکار غازی، ریا کار سخی ایسا سخی کہے گا باری تعالیٰ تیری ہر ہر راہ میں میں نے اپنا مال خرچ کیا تو اسے اللہ تعالیٰ کی جناب سے جواب ملے گا کہ تو جھوٹا ہے تیرا ارادہ تو صرف یہ تھا کہ تو سخی اور جواد مشہور ہوجائے سو وہ ہوچکا یعنی تیرا مقصود دنیا کی شہرت تھی وہ میں نے تجھے دنیا میں ہی دے چکا پس تیری مراد حاصل ہوچکی اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عدی بن حاتم ؓ سے فرمایا کہ تیرے باپ نے اپنی سخاوت سے جو چاہتا تھا وہ اسے مل گیا۔ حضور ﷺ سے سوال ہوتا ہے کہ عبداللہ بن جدعان تو بڑا سخی تھا جس نے مساکین وفقراء کے ساتھ بڑے سلوک کئے اور نام الہ بہت سے غلام آزاد کئے تو کیا اسے ان کا نفع نہ ملے گا ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس سے تو عمر بھر میں ایک دن بھی نہ کہا کہ اے اللہ میرے گناہوں کو قیامت کے دن معاف فرما دینا۔ اسی لئے یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان کا ایمان اللہ اور قیامت پر نہیں۔ ورنہ شیطان کے پھندے میں نہ پھنس جاتے اور بد کو بھلا نہ سمجھ بیٹھتے یہ شیطان کے ساتھی ہیں اور شیطان ان کا ساتھی ہے ساتھی کی برائی پر ان کی برائی بھی سوچ لو عرب شاعر کہتا ہے عن المرء لا تسال وسل عن قرینہ فکل قرین بالمقارن یقتدی انسان کے بارے میں نہ پوچھ اس کے ساتھیوں کا حال دریافت کرلے۔ ہر ساتھی اپنے ساتھی کا ہی پیرو کار ہوتا ہے پھر ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں اللہ پر ایمان لانے اور صحیح راہ پر چلنے اور ریاکاری کو چھوڑ دینے اور اخلاص و یقین پر قائم ہوجانے سے کونسی چیز مانع ہے ؟ ان کا اس میں کیا نقصان ہے ؟ بلکہ سرا سر فائدہ ہے کہ ان کی عاقبت سنور جائے گی یہ کیوں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے تنگ دلی کر رہے ہیں اللہ کی محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟ اللہ انہیں خوب جانتا ہے ان کی بھلی اور بری نیتوں کا اسے علم ہے اہل توفیق اور غیر اہل توفیق سب اس پر ظاہر ہیں وہ بھلوں کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما کر اپنی خوشنودی کے کام ان سے لے کر اپنی قربت انہیں عطا فرماتا ہے اور بروں کو اپنی عالی جناب اور زبردست سرکاری سے دھکیل دیتا ہے جس سے ان کی دنیا اور آخرت برباد ہوتی ہے، عیاذ باللہ من ذالک
Those alladhīna the subject who are niggardly in their duty and bid other people to be niggardly in the same and conceal what God has bestowed upon them of His bounty in the way of knowledge and property these are the Jews the predicate of the said subject is an implied lahum wa‘īdun shadīd ‘for them there is a promise of severe punishment’. And We have prepared for those that disbelieve in this and other matters a humbling chastisement one of humiliation.