And indeed We have illustrated all kinds of examples in this Qur’an for mankind; and indeed if you bring a sign to them, the disbelievers will say, “You are upon nothing but falsehood.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
ولقد بينَّا للناس في هذا القرآن مِن كل مثل من أجل إقامة الحجة عليهم وإثبات وحدانية الله جل وعلا، ولئن جئتهم -أيها الرسول- بأي حجة تدل على صدقك ليقولَنَّ الذين كفروا بك: ما أنتم -أيها الرسول وأتباعك- إلا مبطلون فيما تجيئوننا به من الأمور.
نماز میں مقتدی اور امام کا تعلق حق کو ہم نے اس کلام پاک میں پوری طرح واضح کردیا ہے اور مثالیں دے دے کر سمجھا دیا ہے کہ لوگوں پر حق کھل جائے اور اس کی تابعداری میں لگ جائیں۔ انکے پاس تو کوئی بھی معجزہ آجائے کیساہی نشان حق دیکھ لیں لیکن یہ جھٹ سے بلاغور علی الفور کہیں گے کہ یہ جادو ہے باطل ہے جھوٹ ہے۔ دیکھئے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔ خود قرآن کریم کی آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96 ۙ) 10۔ یونس :96) میں ہے کہ جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے گو ان کے پاس تمام نشانیاں آجائیں یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب کا معائنہ کرلیں۔ پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ بےعلم لوگوں کے دلوں پر اسی طرح اللہ کی مہر لگ جاتی ہے۔ اے نبی ﷺ آپ صبر کیجئے ان کی مخالفت اور دشمنی پر درگزر کئے چلے جائیے۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے وہ ضرور تمہیں ایک دن ان پر غالب کرے گا اور تمہاری امداد فرمائے گا۔ اور دنیا اور آخرت میں تجھے اور تیرے تابعداروں کو مخالفین پر غلبہ دے گا۔ تہیں چاہیے کہ اپنے کام پر لگے رہو حق پر جم جاؤ اس سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہٹو اسی میں ساری ہدایت ہے باقی سب باطل کے ڈھیر ہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ ایک مرتبہ صبح کی نماز میں تھے کہ ایک خارجی نے آپ کا نام لے کر زور سے اس آیت کی تلاوت کی۔ (وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ 65) 39۔ الزمر :65) آپ نے خاموشی سے اس آیت کو سنا سمجھا اور نماز ہی میں اس کے جواب میں آیت (فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِيْنَ لَا يُوْقِنُوْنَ 60) 30۔ الروم :60) تلاوت فرمائی۔ (ابن جریر ابن ابی حاتم) وہ حدیث جس سے اس مبارک سورة کی فضیلت اور اس کی قرأت کا صبح کی نماز میں مستحب ہونا ثابت ہوتا ہے) ایک صحابی عنہ فرماتے ہیں حضور ﷺ نے ایک دن صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے اسی سورت کی قرأت کی۔ اثناء قرأت میں آپ کو وہم ساہو گیا فارغ ہو کر فرمانے لگے تم میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوتے ہیں لیکن باقاعدہ ٹھیک ٹھاک وضو نہیں کرتے۔ تم میں سے جو بھی ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہو اسے اچھی طرح وضو کرنا چائیے (مسند احمد) اس کی اسناد حسن ہے متن بھی حسن ہے اور اسمیں ایک عجیب بھید ہے اور بہت بڑی خیر ہے اور وہ یہ کہ آپ کے مقتدیوں کے وضو بالکل درست نہ ہونے کا اثر آپ پر بھی پڑا۔ پس ثابت ہوا کہ مقتدیوں کی نماز امام کی نماز کے ساتھ معلق ہے۔
And verily We have struck We have coined for mankind in this Qur’ān every kind of similitude as a way of cautioning them. And if wa-la-in the lām is for oaths you O Muhammad (s) were to bring them a miraculous sign such as the staff or the hand in the case of Moses those who disbelieve from among them will certainly say la-yaqūlanna the indicative nūn has been omitted because of the other nūn coming after it and likewise the wāw replaced by the damma in lu because of two unvocalised consonants coming together and it indicates the plural person ‘You — in other words Muhammad (s) and his Companions — are nothing but followers of falsehood’.