Say, “Whatever fee I might have asked from you upon this, is yours; my reward is only upon Allah; and He is Witness over all things.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
قل -أيها الرسول- للكفار: ما سألتكم على الخير الذي جئتكم به من أجر فهو لكم، ما أجري الذي أنتظره إلا على الله المطَّلِع على أعمالي وأعمالكم، لا يخفى عليه شيء فهو يجازي الجميع، كلٌّ بما يستحقه.
مشرکین کو دعوت اصلاح۔ حکم ہو رہا ہے کہ مشرکوں سے فرما دیجئے کہ میں جو تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں تمہیں احکام دینی پہنچتا رہا ہوں وعظ و نصیحت کرتا ہوں اس پر میں تم سے کسی بدلے کا طالب نہیں ہوں۔ بدلہ تو اللہ ہی دے گا جو تمام چیزوں کی حقیقت سے مطلع ہے میری تمہاری حالت اس پر خوب روشن ہے۔ پھر جو فرمایا اسی طرح کی آیت (رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذو الْعَرْشِ ۚ يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ 15 ۙ) 40۔ غافر :15) ، ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے فرمان سے حضرت جبرائیل کو جس پر چاہتا ہے اپنی وحی کے ساتھ بھیجتا ہے۔ جو حق کے ساتھ فرشتہ اتارتا ہے۔ وہ علام الغیوب ہے اس پر آسمان و زمین کی کوئی چیز مخفی نہیں، اللہ کی طرف سے حق اور مبارک شریعت آچکی۔ باطل پراگندہ بودا ہو کر برباد ہوگیا۔ جیسے فرمان ہے (بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۭ وَلَـكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ 18) 21۔ الأنبیاء :18) ہم باطل پر حق کو نازل فرما کر باطل کے ٹکڑے اڑا دیتے ہیں اور وہ چکنا چور ہوجاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ فتح مکہ والے دن جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو وہاں کے بتوں کو اپنی کمان کی لکڑی سے گراتے جاتے تھے اور زبان سے فرماتے جاتے تھے (وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 81) 17۔ الإسراء :81) حق آگیا باطل مٹ گیا وہ تھا ہی مٹنے والا۔ (بخاری۔ مسلم) باطل کا اور ناحق کا دباؤ سب ختم ہوگیا۔ بعض مفسرین سے مروی ہے کہ مراد یہاں باطل سے ابلیس ہے۔ یعنی نہ اس نے کسی کو پہلے پیدا کیا نہ آئندہ کرسکے، نہ مردے کو زندہ کرسکے، نہ اسے کوئی اور ایسی قدرت حاصل ہے۔ بات تو یہ بھی سچی ہے لیکن یہاں یہ مراد نہیں۔ واللہ اعلم، پھر جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر سب کی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ کی بھیجی ہوئی وحی میں ہے۔ وہی سراسر حق ہے اور ہدایت وبیان و رشد ہے۔ گمراہ ہونے والے آپ ہی بگڑ رہے ہیں اور اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے جب کہ مفوضہ کا مسئلہ دریافت کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا اسے میں اپنی رائے سے بیان کرتا ہوں اگر صحیح ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس سے بری ہے۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی باتوں کا سننے والا ہے اور قریب ہے۔ پکارنے والے کی ہر پکار کو ہر وقت سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے فرمایا تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے۔ جسے تم پکار رہے ہو وہ سمیع و قریب و مجیب ہے۔
Say to them ‘I have not asked you in return for my warning and delivering the Message to you any reward since it is for the benefit of you in other words I do not ask you for any reward in return for this. Indeed my reward lies only with God and He is Witness over all things’ observing them all knowing my truthfulness.