Proclaim, “Indeed my Lord sends down the truth; the All Knowing of all the hidden.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
قل -أيها الرسول- لمن أنكر التوحيد ورسالة الإسلام: إن ربي يقذف الباطل بحجج من الحق، فيفضحه ويهلكه، والله علام الغيوب، لا يخفى عليه شيء في الأرض ولا في السماء.
مشرکین کو دعوت اصلاح۔ حکم ہو رہا ہے کہ مشرکوں سے فرما دیجئے کہ میں جو تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں تمہیں احکام دینی پہنچتا رہا ہوں وعظ و نصیحت کرتا ہوں اس پر میں تم سے کسی بدلے کا طالب نہیں ہوں۔ بدلہ تو اللہ ہی دے گا جو تمام چیزوں کی حقیقت سے مطلع ہے میری تمہاری حالت اس پر خوب روشن ہے۔ پھر جو فرمایا اسی طرح کی آیت (رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذو الْعَرْشِ ۚ يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ 15 ۙ) 40۔ غافر :15) ، ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے فرمان سے حضرت جبرائیل کو جس پر چاہتا ہے اپنی وحی کے ساتھ بھیجتا ہے۔ جو حق کے ساتھ فرشتہ اتارتا ہے۔ وہ علام الغیوب ہے اس پر آسمان و زمین کی کوئی چیز مخفی نہیں، اللہ کی طرف سے حق اور مبارک شریعت آچکی۔ باطل پراگندہ بودا ہو کر برباد ہوگیا۔ جیسے فرمان ہے (بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۭ وَلَـكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ 18) 21۔ الأنبیاء :18) ہم باطل پر حق کو نازل فرما کر باطل کے ٹکڑے اڑا دیتے ہیں اور وہ چکنا چور ہوجاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ فتح مکہ والے دن جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو وہاں کے بتوں کو اپنی کمان کی لکڑی سے گراتے جاتے تھے اور زبان سے فرماتے جاتے تھے (وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 81) 17۔ الإسراء :81) حق آگیا باطل مٹ گیا وہ تھا ہی مٹنے والا۔ (بخاری۔ مسلم) باطل کا اور ناحق کا دباؤ سب ختم ہوگیا۔ بعض مفسرین سے مروی ہے کہ مراد یہاں باطل سے ابلیس ہے۔ یعنی نہ اس نے کسی کو پہلے پیدا کیا نہ آئندہ کرسکے، نہ مردے کو زندہ کرسکے، نہ اسے کوئی اور ایسی قدرت حاصل ہے۔ بات تو یہ بھی سچی ہے لیکن یہاں یہ مراد نہیں۔ واللہ اعلم، پھر جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر سب کی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ کی بھیجی ہوئی وحی میں ہے۔ وہی سراسر حق ہے اور ہدایت وبیان و رشد ہے۔ گمراہ ہونے والے آپ ہی بگڑ رہے ہیں اور اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے جب کہ مفوضہ کا مسئلہ دریافت کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا اسے میں اپنی رائے سے بیان کرتا ہوں اگر صحیح ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس سے بری ہے۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی باتوں کا سننے والا ہے اور قریب ہے۔ پکارنے والے کی ہر پکار کو ہر وقت سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے فرمایا تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے۔ جسے تم پکار رہے ہو وہ سمیع و قریب و مجیب ہے۔
Say ‘Indeed my Lord hurls the truth He casts it onto His prophets — He is the Knower of the Unseen’ of all that is hidden from His creatures throughout the heavens and the earth.